تاریخ راچی
قدیم یونانی راچی ے موجودہ علاقہ سے مختلف نامو سے واقف تھے: روولا، جہا سندر اعظم وادی سندھ می اپنی مہم ے بعد،
اپنی فوج ی واپس بابل روانگی ی تیاری ے لیے خیمہ زن ہوا ؛
بندر مرونوبارا (ممن راچی ی بندرگاہ سے نزدی جزیرہ منوہ جہا سے سندر ا سپہ سالار نییرچس واپس اپنے وطن روانہ ہوا ؛
اور بار بریون، جوہ ہندوستانی یونانیو ی باختری مملت ی بندرگاہ تھی۔
اس ے علاوہ ،
عربی اس علاقہ و بندرگاہِ دیبل ے نام سے جانتے تھے،
جہا سے محمد بن قاسم نے 712ء می ی اپنی فتوحات ا آغاز یا ۔
برطانوی تاریخ دان ایلی ے مطابق موجودہ راچی ے چند علاقے اور جزیرہ منوہ،
دیبل می شامل تھے۔
1772 می گاؤ ولاچی جو گوھ و مسقط اور بحرین ے ساتھ تجارت رنے ی بندرگاہ منتخب یا گیا۔ اس ی وجہ سے یہ گاؤ تجارتی مرز می تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔
بھتے ہوئے شہر ی حفاظت ے ليے شہر ی گرد فصیل بنائی گئی اور مسقط سے توپی درآمد ر ے شہر ی فصیل پر نصب ی گئی۔ فصیل می دو دروازے تھے۔
ای دروازے ا رخ سمندر ی طرف تھا اور اس ليے اس و ھارادر (سندھی می ھارودر)
ہا جاتا اور دوسرے دروازے ا رخ لیاری ندی ی طرف تھا اور اس ليے اس و میھادر
(سندھی می مھو در) ہا جاتا تھا۔
1795 ت راچی خان قلات ی مملت ا حصہ تھا۔
اس سال سندھ ے حمرانو اور خان قلات ے درمیان جنگ چھ گئی
اور راچی پر سندھ ی حومت ا قبضہ ہو گیا۔
اس ے بعد شہر ی بندرگاہ ی امیابی اور زیادہ بے مل ی تجارت
ا مرز بن جانے ی وجہ سے راچی ی آبادی می اضافہ ہوا۔
اس ترقی نے جہا ای طرف ئی لوگو و راچی ی طرف ھینچا وہا انگریزو ی نگاہی بھی اس شہر ی طرف ھینچ لی۔
انگریزو نے 3 فروری 1839 و راچی شہر پر حملہ یا اور اس پر قبضہ ر لیا۔
تین سال ے بعد شہر و برطانوی ہندوستان ے ساتھ ملحق ر ے ای ضلع ی حیثیت دے دی۔ انگریزو نے راچی ی قدرتی بندرگاہ و دریائے سندھ ی وادی ا اہم تجارتی مرز بنانے ے ليے شہر ی ترقی پر اہم نظر رھی۔ برطانوی راج ے دوران راچی ی آبادی اور بندرگاہ دونو بہت تیزی سے بھے۔ 1857 ی جنگ آزادی ے دوران راچی می 21وی نیو انفنری نے 10 ستمبر و مغل فرمانروابہادر شاہ ظفر سے بیعت ر لی۔
انگریزو نے شہر پر دوبارہ قبضہ ر لیا اور "بغاوت" ا سر چل دیا۔
1876 می راچی می بانی پاستان محمد علی جناح ی پیدائش ہوئی۔
اس وقت ت راچی ای ترقی یافتہ شہر ی صورت اختیار ر چا تھا جس ا انحصار شہر ے ریلوے اسیشن اور بندرگاہ پر تھا۔
اس دور ی اثر عمارتو ا فن تعمیر لاسیی برطانوی نوآبادیاتی تھا،
جو ہ بر صغیر ے اثر شہرو سے مختلف ہے۔
ان می سے اثر عمارتی اب بھی موجود ہی اور سیاحت ا مرز بنتی ہی۔
اس ہی دور می راچی ادبی،
تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیو ا مرز بھی بن رہا تھا۔
راچی آہستہ آہستہ ای بی بندرگاہ ے گرد ای تجارتی مرز بنتا گیا۔
1880 ی دہائی می ریل ی پی ے ذریعے راچی و باقی ہندوستان سے جوا گیا۔
1881 می راچی ی آبادی 73،500 سے، 1891 می 105،199 اور 1901 می 115،407 ت بھ گئی۔
1899 می راچی مشرقی دنیا ا سب سے با گندم ی درآمد ا مرز تھا۔
جب 1911 می برطانوی ہندوستان ا دارالحومت دہلی بنا تو راچی سے گزرنے والے
مسافرو ی تعداد بھ گئی۔
1936 می جب سندھ و صوبہ ی حیثیت دی گئی تو راچی و اس ا دارالحومت منتخب یا گیا۔
1947 می راچی و پاستان ا دار الحومت منتخب یا گیا۔
اس وقت شہر ی آبادی صرف چار لاھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت ی وجہ سے شہر ی آبادی می افی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے ا ای مرز بن گیا۔
پاستان ا دارالحومت راچی سے راولپنڈی اور پھر اسلام آباد منتقل تو ہوا لین راچی اب بھی پاستان ا سب سے با شہر اور مرز ہے۔ راچی نے 1980 اور 1990 ی دہائیو می تشدد،
سیاسی اور سماجی ہنگامہ آرائی اور دہشت گردی ا شار بنا رہا۔
موجودہ دہائی می راچی می امن عامہ ی صورتحال افی بہتر ہوئی ہے اور اس ی وجہ سے شہر می بہت ترقی ہوئی۔
ابھی راچی می ترقیاتی ام بہت تیزی سے جاری ہی۔
اس ے ساتھ ساتھ راچی ای عالمی مرز ی شل می ابھر رہا ہے۔
راچی شہر ی بلدیہ ا آغاز 1933 می ہوا۔ ابتدا می شہر ا ای میئر،
ای نائب میئر اور 57 ونسلر ہوتے تھے۔ 1976 می بلدیہ راچی و بلدیہ عظمیٰ راچی بنا دیا گیا۔
سن 2000 می حومت پاستان نے سیاسی،
انتظامی اور مالی وسائل اور ذمہ داریو و نچلی سطح ت منتقل رنے ا منصوبہ بنایا۔
اس ے بعد 2001 می اس منصوبے ے نفاذ سے پہلے راچی انتظامی ڈھانچے می دوسرے درجے ی انتظامی وحدت یعنی ڈوین، راچی ڈوین، تھا۔ راچی ڈوین می پانچ ضلع،
ضلع راچی جنوبی،
ضلع راچی شرقی، ضلع راچی غربی، ضلع راچی وسطی اور ضلع ملیر شامل تھے۔
سن 2001 می اس تمام ضلعو و ای ضلعے می جو لیا گیا۔
اب راچی ا انتظامی نظام تین سطحو پر واقع ہے۔
سی ڈسر گورنمن
اؤن میونسپل ایڈمنسریشن
یونین ونسل ایڈمنسریشن
ضلع راچی و 18 اؤن می تقسیم یا گیا ہے۔
ان سب ی منتخب بلدیاتی انتظامیہ موجود ہی۔
ان ی ذمہ داریا اور اختیارات می پانی ی فراہمی،
ناسی آب، وے ی صفائی،
سو ی مرمت، باغات، ریف سگنل اور چند دیگر زمرو می آتی ہی۔
بقیہ اختیارات ضلعی انتظامیہ ے حوالے ہی۔
یہ اؤنز مزید 178 یونین ونسلو می تقسیم ہی جو مقامی حومتو ے نظام ی بنیادی اائی ہے۔ ہر یونین ونسل 13 افراد ی باڈی پر مشتمل ہے جس می ناظم اور نائب ناظم بھی شامل ہی۔ یوسی ناظم مقامی انتظامیہ ا سربراہ اور شہری حومت ے منصوبہ جات اور بلدیاتی خدمات ے علاوہ عوام ی شایات حام بالا ت پہنچانے ا بھی ذمہ دار ہے۔
2005ء می مقامی حومتو ے انتخابات می سید مصطفیٰ مال نے امیابی حاصل ی اور نعمت اللہ خان ی جگہ راچی ے ناظم قرار پائے جبہ نسرین جلیل شہر ی نائب ناظمہ قرار پائی۔ مصطفیٰ مال ناظم ا عہدہ سنبھالنے سے قبل صوبہ سندھ ے وزیر برائے انفارمیشن ینالوجی تھے۔ ان سے قبل راچی ے ناظم نعمت اللہ خان 2004ء اور 2005ء ے لیے ایشیاء ے بہترین ناظمین می سے ای قرار پائے تھے۔
مصطفی ٰمال نعمت اللہ خان ا شروع ردہ سفر جاری رھے ہوئے ہی اور شہر می ترقیاتی ام تیزی سے جاری ہی۔
راچی شہر مندرجہ ذیل اؤنز می تقسیم ہے:
بلدیہ اؤن
بن قاسم اؤن
گڈاپ اؤن
گلبرگ اؤن
گلشن اؤن
جمشید اؤن
یمای اؤن
ورنگی اؤن
لانڈھی اؤن
لیاقت آباد اؤن
لیاری اؤن
ملیر اؤن
نیو راچی اؤن
نارتھ ناظم آباد اؤن
اورنگی اؤن
صدر اؤن
شاہ فیصل اؤن
سائ اؤن
واضح رہے ہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھاری راچی می قائم ہے لین وہ راچی ا اؤن نہی اور نہ ہی سی اؤن ا حصہ ہے بلہ پا افواج ے زير انتظام ہے۔
راچی پاستان ے چند اہم ترین ثقافتی ادارو ا گھر ہے۔
تزئین و آرائش ے بعد ہندو جیم خانہ می قائم ردہ نیشنل ایڈمی آف پرفارمنگ آرس (ناپا) لاسیی موسیقی اور جدید تھیر سمیت دیگر شعبہ جات می دو سالہ ڈپلومہ ورس پیش رتا ہے۔
آل پاستان میوزیل انفرنس 2004ء می اپنے قیام ے بعد سالانہ میوز فیسیول منعقد ررہا ہے۔ یہ فیسیول شہری زندگی ے ای اہم جز ی حیثیت اختیار ر گیا ہے جس ا شدت سے انتظار یا جاتا ہے اور 3 ہزار سے زائد شہری اس می شرت رتے ہی جبہ دیگر شہرو سے بھی مہمان تشریف لاتے ہی۔
وچہ ثقافت می مشاعرے، ڈرامے اور موسیقی پیش ی جاتی ہے۔
راچی می قائم چند عجائب گھرو می معمول ی بنیادو پر نمائشی منعقد ہوتی ہی جن می موہہ پیلس اور قومی عجائب گھر شامل ہی۔
سالانہ بنیادو پر منعقدہ ارا فلم فیسیول می پاستانی اور بین الاقوامی آزاد اور دستاویزی فلمی پیش ی جاتی ہی۔
راچی ی ثقافت مشرق وسطی،
جنوبی ایشیائی اور مغربی تہذیبو ے ملاپ سے تشیل پائی ہے۔ راچی می پاستان ی سب سے بی مڈل لاس آبادی قیام پذیر ہے۔
راچی صوبہ سندھ ا صدر مقام ہے۔
قدیم یونانی راچی ے موجودہ علاقہ سے مختلف نامو سے واقف تھے: روولا، جہا سندر اعظم وادی سندھ می اپنی مہم ے بعد،
اپنی فوج ی واپس بابل روانگی ی تیاری ے لیے خیمہ زن ہوا ؛
بندر مرونوبارا (ممن راچی ی بندرگاہ سے نزدی جزیرہ منوہ جہا سے سندر ا سپہ سالار نییرچس واپس اپنے وطن روانہ ہوا ؛
اور بار بریون، جوہ ہندوستانی یونانیو ی باختری مملت ی بندرگاہ تھی۔
اس ے علاوہ ،
عربی اس علاقہ و بندرگاہِ دیبل ے نام سے جانتے تھے،
جہا سے محمد بن قاسم نے 712ء می ی اپنی فتوحات ا آغاز یا ۔
برطانوی تاریخ دان ایلی ے مطابق موجودہ راچی ے چند علاقے اور جزیرہ منوہ،
دیبل می شامل تھے۔
1772 می گاؤ ولاچی جو گوھ و مسقط اور بحرین ے ساتھ تجارت رنے ی بندرگاہ منتخب یا گیا۔ اس ی وجہ سے یہ گاؤ تجارتی مرز می تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔
بھتے ہوئے شہر ی حفاظت ے ليے شہر ی گرد فصیل بنائی گئی اور مسقط سے توپی درآمد ر ے شہر ی فصیل پر نصب ی گئی۔ فصیل می دو دروازے تھے۔
ای دروازے ا رخ سمندر ی طرف تھا اور اس ليے اس و ھارادر (سندھی می ھارودر)
ہا جاتا اور دوسرے دروازے ا رخ لیاری ندی ی طرف تھا اور اس ليے اس و میھادر
(سندھی می مھو در) ہا جاتا تھا۔
1795 ت راچی خان قلات ی مملت ا حصہ تھا۔
اس سال سندھ ے حمرانو اور خان قلات ے درمیان جنگ چھ گئی
اور راچی پر سندھ ی حومت ا قبضہ ہو گیا۔
اس ے بعد شہر ی بندرگاہ ی امیابی اور زیادہ بے مل ی تجارت
ا مرز بن جانے ی وجہ سے راچی ی آبادی می اضافہ ہوا۔
اس ترقی نے جہا ای طرف ئی لوگو و راچی ی طرف ھینچا وہا انگریزو ی نگاہی بھی اس شہر ی طرف ھینچ لی۔
انگریزو نے 3 فروری 1839 و راچی شہر پر حملہ یا اور اس پر قبضہ ر لیا۔
تین سال ے بعد شہر و برطانوی ہندوستان ے ساتھ ملحق ر ے ای ضلع ی حیثیت دے دی۔ انگریزو نے راچی ی قدرتی بندرگاہ و دریائے سندھ ی وادی ا اہم تجارتی مرز بنانے ے ليے شہر ی ترقی پر اہم نظر رھی۔ برطانوی راج ے دوران راچی ی آبادی اور بندرگاہ دونو بہت تیزی سے بھے۔ 1857 ی جنگ آزادی ے دوران راچی می 21وی نیو انفنری نے 10 ستمبر و مغل فرمانروابہادر شاہ ظفر سے بیعت ر لی۔
انگریزو نے شہر پر دوبارہ قبضہ ر لیا اور "بغاوت" ا سر چل دیا۔
1876 می راچی می بانی پاستان محمد علی جناح ی پیدائش ہوئی۔
اس وقت ت راچی ای ترقی یافتہ شہر ی صورت اختیار ر چا تھا جس ا انحصار شہر ے ریلوے اسیشن اور بندرگاہ پر تھا۔
اس دور ی اثر عمارتو ا فن تعمیر لاسیی برطانوی نوآبادیاتی تھا،
جو ہ بر صغیر ے اثر شہرو سے مختلف ہے۔
ان می سے اثر عمارتی اب بھی موجود ہی اور سیاحت ا مرز بنتی ہی۔
اس ہی دور می راچی ادبی،
تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیو ا مرز بھی بن رہا تھا۔
راچی آہستہ آہستہ ای بی بندرگاہ ے گرد ای تجارتی مرز بنتا گیا۔
1880 ی دہائی می ریل ی پی ے ذریعے راچی و باقی ہندوستان سے جوا گیا۔
1881 می راچی ی آبادی 73،500 سے، 1891 می 105،199 اور 1901 می 115،407 ت بھ گئی۔
1899 می راچی مشرقی دنیا ا سب سے با گندم ی درآمد ا مرز تھا۔
جب 1911 می برطانوی ہندوستان ا دارالحومت دہلی بنا تو راچی سے گزرنے والے
مسافرو ی تعداد بھ گئی۔
1936 می جب سندھ و صوبہ ی حیثیت دی گئی تو راچی و اس ا دارالحومت منتخب یا گیا۔
1947 می راچی و پاستان ا دار الحومت منتخب یا گیا۔
اس وقت شہر ی آبادی صرف چار لاھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت ی وجہ سے شہر ی آبادی می افی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے ا ای مرز بن گیا۔
پاستان ا دارالحومت راچی سے راولپنڈی اور پھر اسلام آباد منتقل تو ہوا لین راچی اب بھی پاستان ا سب سے با شہر اور مرز ہے۔ راچی نے 1980 اور 1990 ی دہائیو می تشدد،
سیاسی اور سماجی ہنگامہ آرائی اور دہشت گردی ا شار بنا رہا۔
موجودہ دہائی می راچی می امن عامہ ی صورتحال افی بہتر ہوئی ہے اور اس ی وجہ سے شہر می بہت ترقی ہوئی۔
ابھی راچی می ترقیاتی ام بہت تیزی سے جاری ہی۔
اس ے ساتھ ساتھ راچی ای عالمی مرز ی شل می ابھر رہا ہے۔
راچی شہر ی بلدیہ ا آغاز 1933 می ہوا۔ ابتدا می شہر ا ای میئر،
ای نائب میئر اور 57 ونسلر ہوتے تھے۔ 1976 می بلدیہ راچی و بلدیہ عظمیٰ راچی بنا دیا گیا۔
سن 2000 می حومت پاستان نے سیاسی،
انتظامی اور مالی وسائل اور ذمہ داریو و نچلی سطح ت منتقل رنے ا منصوبہ بنایا۔
اس ے بعد 2001 می اس منصوبے ے نفاذ سے پہلے راچی انتظامی ڈھانچے می دوسرے درجے ی انتظامی وحدت یعنی ڈوین، راچی ڈوین، تھا۔ راچی ڈوین می پانچ ضلع،
ضلع راچی جنوبی،
ضلع راچی شرقی، ضلع راچی غربی، ضلع راچی وسطی اور ضلع ملیر شامل تھے۔
سن 2001 می اس تمام ضلعو و ای ضلعے می جو لیا گیا۔
اب راچی ا انتظامی نظام تین سطحو پر واقع ہے۔
سی ڈسر گورنمن
اؤن میونسپل ایڈمنسریشن
یونین ونسل ایڈمنسریشن
ضلع راچی و 18 اؤن می تقسیم یا گیا ہے۔
ان سب ی منتخب بلدیاتی انتظامیہ موجود ہی۔
ان ی ذمہ داریا اور اختیارات می پانی ی فراہمی،
ناسی آب، وے ی صفائی،
سو ی مرمت، باغات، ریف سگنل اور چند دیگر زمرو می آتی ہی۔
بقیہ اختیارات ضلعی انتظامیہ ے حوالے ہی۔
یہ اؤنز مزید 178 یونین ونسلو می تقسیم ہی جو مقامی حومتو ے نظام ی بنیادی اائی ہے۔ ہر یونین ونسل 13 افراد ی باڈی پر مشتمل ہے جس می ناظم اور نائب ناظم بھی شامل ہی۔ یوسی ناظم مقامی انتظامیہ ا سربراہ اور شہری حومت ے منصوبہ جات اور بلدیاتی خدمات ے علاوہ عوام ی شایات حام بالا ت پہنچانے ا بھی ذمہ دار ہے۔
2005ء می مقامی حومتو ے انتخابات می سید مصطفیٰ مال نے امیابی حاصل ی اور نعمت اللہ خان ی جگہ راچی ے ناظم قرار پائے جبہ نسرین جلیل شہر ی نائب ناظمہ قرار پائی۔ مصطفیٰ مال ناظم ا عہدہ سنبھالنے سے قبل صوبہ سندھ ے وزیر برائے انفارمیشن ینالوجی تھے۔ ان سے قبل راچی ے ناظم نعمت اللہ خان 2004ء اور 2005ء ے لیے ایشیاء ے بہترین ناظمین می سے ای قرار پائے تھے۔
مصطفی ٰمال نعمت اللہ خان ا شروع ردہ سفر جاری رھے ہوئے ہی اور شہر می ترقیاتی ام تیزی سے جاری ہی۔
راچی شہر مندرجہ ذیل اؤنز می تقسیم ہے:
بلدیہ اؤن
بن قاسم اؤن
گڈاپ اؤن
گلبرگ اؤن
گلشن اؤن
جمشید اؤن
یمای اؤن
ورنگی اؤن
لانڈھی اؤن
لیاقت آباد اؤن
لیاری اؤن
ملیر اؤن
نیو راچی اؤن
نارتھ ناظم آباد اؤن
اورنگی اؤن
صدر اؤن
شاہ فیصل اؤن
سائ اؤن
واضح رہے ہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھاری راچی می قائم ہے لین وہ راچی ا اؤن نہی اور نہ ہی سی اؤن ا حصہ ہے بلہ پا افواج ے زير انتظام ہے۔
راچی پاستان ے چند اہم ترین ثقافتی ادارو ا گھر ہے۔
تزئین و آرائش ے بعد ہندو جیم خانہ می قائم ردہ نیشنل ایڈمی آف پرفارمنگ آرس (ناپا) لاسیی موسیقی اور جدید تھیر سمیت دیگر شعبہ جات می دو سالہ ڈپلومہ ورس پیش رتا ہے۔
آل پاستان میوزیل انفرنس 2004ء می اپنے قیام ے بعد سالانہ میوز فیسیول منعقد ررہا ہے۔ یہ فیسیول شہری زندگی ے ای اہم جز ی حیثیت اختیار ر گیا ہے جس ا شدت سے انتظار یا جاتا ہے اور 3 ہزار سے زائد شہری اس می شرت رتے ہی جبہ دیگر شہرو سے بھی مہمان تشریف لاتے ہی۔
وچہ ثقافت می مشاعرے، ڈرامے اور موسیقی پیش ی جاتی ہے۔
راچی می قائم چند عجائب گھرو می معمول ی بنیادو پر نمائشی منعقد ہوتی ہی جن می موہہ پیلس اور قومی عجائب گھر شامل ہی۔
سالانہ بنیادو پر منعقدہ ارا فلم فیسیول می پاستانی اور بین الاقوامی آزاد اور دستاویزی فلمی پیش ی جاتی ہی۔
راچی ی ثقافت مشرق وسطی،
جنوبی ایشیائی اور مغربی تہذیبو ے ملاپ سے تشیل پائی ہے۔ راچی می پاستان ی سب سے بی مڈل لاس آبادی قیام پذیر ہے۔
راچی صوبہ سندھ ا صدر مقام ہے۔
-------------------------
م
ن
ق
و
ل
ن
ق
و
ل
.
اسم الموضوع : تاریخ راچی
|
المصدر : .: أشتات وشذرات :.